top of page
  • Writer's pictureTubrazy Shahid

آن لائن فوٹو شوٹ



کیس کی تیاری مکمل کرنے میں نصف شب گزر چکی تھی، میں نے فائیل بند کی اور آرام کی غرض سے بیڈ پر لیٹنے سے پہلے موبائل آف کرنے لگا تو ایک وائس میسج موصول ہوا، ساتھ ہی لیٹ نائٹ میسج کرنے پہ معذرت رومن اردو میں لکھا تھا۔ میں نے ھیڈ فون لگا کر وائس میسج سنا، ایک خاتون بول رہی تھی کہ سر آپکا واٹس ایپ نمبر انٹرنیٹ سے لیا ہے، پتہ نہیں مجھے آپ پر بھروسہ کرنا چاہیے کہ نہیں؟ لیکن میرے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے، سر میرے ساتھ بہت بڑا دھوکا ہوا ہے، یہ معاشرہ نہیں بھوکے جانوروں کا اکھٹ لگتا ہے، جو صرف نوچنے کے لیے تاک میں لگتے رہتے ہیں۔ کاش آپ میری کوئی مدد کر سکیں! میں نے ‘سی یو ٹومارو’ کے میسج سے فون ایروپلین موڈ پہ لگا کے سو گیا۔

مہذب معاشرے فرد کی اصلاح کی شعوری کوشش میں پیش پیش رہتے ہیں۔ معاصر فرد کی ذات ان معاشروں کی نظر میں انکے وجود کی جزولانفک ہے۔ مغربی دنیا مہذب معاشرہ قائم کرنے کی زندہ مثال قائم کر چکے ہیں، انسان اپنی زندگی میں جس امن کا متمنی ہوتا ہے وہ حصول سکون کی منزل پا چکے ہیں۔ سوچ کا اضطراب اور خیال کا انتشار ختم کرنے میں وہ کامیاب ٹھہرے۔ بچپن سے خیال کی یکسوئی کے ساتھ حصول علم انسان کے اندر کائنات کے بھاری اور پچیدہ کشف اٹھانے کی طاقت پیدا کرتا ہے۔ ذات پات، قوم، مذہب اور فرقہ انسانی فکر کی یکسوئی کے ازلی دشمن ہیں جو خیال کی طاقت کو بیدردی کے ساتھ پاش پاش کر دیتے ہیں۔


علم اپنے مطلوب میں مہم جو ہے مگر حصول میں سکون کا متلاشی ہے۔ سکون زدہ معاشرے فرد کے اندر ایثاروقربانی، احسان اور انسانیت جیسے رویے پیدا کرتے ہیں، جبکہ مضطرب معاشرے منافق، حریص، لالچی اور موقعہ پرست مجرم زہن پیدا کرتے ہیں۔ وہ اپنے اندر کوئی خوبی پیدا کرنے کی بجائے ایک کثیرالجہت خوبیوں والی مافوالفطرت شخصیت پیدا کر کے اس کی عبادت شروع کر دیتے ہیں۔ دراصل وہ کسی خدا ، پیغمبر یا کسی اخلاقی کتاب کو عملاً نہیں مانتے، فقط اپنے مجرمانہ فعل کی عفو کی سند قبولیت کے خواہشمند ہوتے ہیں۔


اگلی صبح عدالت واپسی پر میں نے رات والے نمبر پہ کال کر دی، خاتون نے اپنا نام زہرا نقوی بتایا، اس نے اپنے تعارف میں اپنی خاندانی تقدیس بڑی طوالت سے بتانے کے بعد اپنے کیس کے حقائق بتائے۔ سر اس نے خدا، نبی اور قرآن کی قسمیں اٹھا کر کہا تھا کہ آپ کا سارا ڈیٹا ہمیشہ محفوظ رہے گا، مگراب وہ میری فیسبک پروفائل سے لئے ہوئے میرے فیملی ممبران کو میرا ڈیٹا بھیجنے کی دھمکیاں دے رہا ہے، تین دن کا وقت دیا ہے اس نے، اگر پچاس ہزار روپے نہ دئیے تو وہ میری برہنہ وڈیوز شیئر کر دے گا۔

زہرا کا میاں پہلی اولاد بیٹی کی پیدائش پر اپنی بیوی اور بچی میں دلچسپی لینا چھوڑ گیا تھا۔ اس کو بیٹا پیدا ہونے کا پختہ یقین تھا، مگر بیٹی کی پیدائش پر اسکا رویہ بیزار کن ہو گیا تھا۔ گھر کے اخراجات زہرا پرائیویٹ سکول میں نوکری کر کے پورے کر رہی تھی۔

اپنی بیٹی ہمنا کی پہلی سالگرہ ہر صورت سیلیبریٹ کرنا چاہتی تھی۔ خاوند سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو اس نے ڈانٹ دیا کہ ہمارے خاندان میں بیٹیوں کی سالگرہ وغیرہ نہیں مناتے، زہرا کو اپنے خاوند کی نظر میں بیٹی کا وجود بے معانی سا لگنے لگا، اصرار اور تردد بےکار تھا، منیر احمد دو ٹوک الفاظ میں اپنا فیصلہ صادر کرنے کا عادی تھا۔

عورت اپنے رشتوں کا پالن کرنے میں جارح ہے۔ وہ اپنے رشتوں کا بھرم رکھنے میں ہر خاردار سے گزر جاتی ہے۔ رشتوں کو مجروح کرنے اور قطع تعلق میں مرد ہر اول دستہ رہا ہے۔ عورت رشتوں کا نہ قطع کرتی ہے اور نہ ہی بے تعلق رہ سکتی ہے، وہ جن سے تعلق بناتی ہے،ازلی بناتی ہے، عورت کے جو اپنے ہوتے ہیں وہ رشتے ہو تے ہیں، باقی ساری دنیا غیر اور اجنبی۔


زہرا اپنے والدین کو اپنی مجبوری نہ بتا سکتی تھی، وہ بوڑھے اور اپنے بیٹوں کے آسرا پر تھے، ان سے مدد لینے کا سوال ہی نہ اٹھتا تھا۔ موبائل پر فیس بک براؤز کرتے ہوئے زہرا کو ایک ایڈ نظر آیا گھر بیٹھے آن لائن جاب کر کے روزانہ پانچ سے دس ہزار کمائیں، گھریلو خواتین کے لئے سنہری موقع، زہرا کو امید کی کرن نظر آئی، کہ وہ اپنی بیٹی کی سالگرہ کا فنکشن بندو بست کرسکتی ہے، اس نے ایڈ پر دیئے واٹس ایپ نمبر پر مزید معلومات کے لئے کال کر دی، کال ریسیو کرنے والے نے کہا کہ میڈم اگر آپ جاب کرنے میں خواہشمند ہیں تو اسی نمبر پر وڈیو کال کریں، آپ کی کال کے ساتھ آپ کا انٹرویو بھی ہو جائے گا، زہرا نے بغیر توقف کے وڈیو کال کر دی۔ وڈیو کال میں سامنے کوئی مرد بیٹھا پوچھ رہا تھا کہ میڈم کیا آپ کمپیوٹر چلانا جانتی ہیں؟ زہرا گریجویٹ تھی، کمپیوٹر کی بنیادی معلومات سے واقف تھی۔

میڈم کاپی پیسٹ پروگرام سے ریفرل لنک جاب کے لیے روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے دینے ہوں گے اور ایک ہفتے کے بعد آپ کو آٹھ سے دس ہزار روپے ملیں گے۔ کوئی چھٹی یا عذر قابل قبول نہ ہے، پرکشش خواتین اور جوڑوں کے لئے فوٹو شوٹ کا آپشن بھی ہے ایک فوٹو شوٹ کا دس ہزار پیکیج ہے۔

زہرا: میرے ہسبنڈ فوٹوشوٹ کے لئے ہرگز نہیں مانیں گے۔

آپ اکیلی بھی فوٹو شوٹ کرا سکتی ہیں پیکیج وہی دس ہزار کا ہے۔

زہرا نے پوچھا سر فوٹو شوٹ کے لیے کہاں آنا ہوگا؟ میڈم فوٹو شوٹ آن لائن ہے واٹس اپ پہ بھی شوٹ کرا سکتی ہیں اور پیمنٹ بھی ان لائن آپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوجائے گی. زہرا نے اپنی تسلی کے لئے پوچھا کہ آپ فوٹو شوٹ کا کیا کرتے ہیں اس نے جواب دیا کہ ہم شوٹ کو فیملی میگزین میں شائع کر دیتے ہیں جہاں پر لوگ دیکھ کر انسپائریشن حاصل کرتے ہیں۔

ضرورت مند کو باتونی انسان اپنے مطلب کے شیشے میں اتار لیتا ہے آن لائن ایمپائر نے زہرا کا مختلف کپڑوں اور مختلف پوز کے ساتھ تصویری اور ویڈیو ڈیٹا حاصل کرلیا۔

فوٹوشوٹ ختم ہوتے ہی زہرا نے رقم کا مطالبہ کیا اور پوچھا کہ کتنی دیر تک رقم اکاؤنٹ میں آجائے گی؟ آن لائن اپلائیر بولا میڈم صرف چند گھنٹوں میں، بلکہ میڈم ایک اور پرکشش آفر ہے، جس میں صرف دس منٹ کا فوٹو شوٹ کرانا ہوگا اور آپ کو اس کے دس ہزار ایکسٹرا ملیں گے زہرا کا اعتماد اب قدرے بحال ہو چکا تھا۔

اس فوٹو شوٹ میں مجھے کیا کرنا ہو گا؟ میڈم صرف آپ نے دس منٹ کے لئے ٹاپلس ہوکے شوٹ کرانا ہے

آپ کا ڈیٹا بھی محفوظ رہے گا اور نہ ہی کہیں شائع ہوگیا۔

زہرا کے ماتھے پر ایک گہری تیوری نمودار ہوئی اور غصے اور ہیجان میں بولی کیا مطلب؟ مجھے اس شوٹ میں ننگا ہونا پڑے گا! نہیں مجھے ہرگز نہیں کرانا ایسا شوٹ، آپ مجھے پہلے فوٹو شوٹ کے پیسے میرے اکاونٹ میں ٹرانسفر کر دیں ، مہربانی۔

میڈم آپ کی رقم ہمارے پاس امانت ہے آپ فکر نہ کریں، وہ ضرور ملے گی، میں صرف اس لئے کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالی نے آپ کو خوش شکل اور خوبصورت جسم دیا ہے ہمارے پاس لوگ شوٹ کرانے آتے ہیں، ہم پیشہ ورانہ طور پر کام کرتے ہیں، لوگوں کی تصویروں کو ایڈٹ کر کے مجرمانہ طور پر استعمال نہیں کرتے آپ مجھ سے کوئی حلف اور قسم لے سکتی ہیں آپ کا ڈیٹا اور شوٹ کبھی مس یوز نہیں ہوگا، صرف چند منٹوں میں رقم آپکے اکاؤنٹ میں آجائے گی۔

انسانی جنس کے لئے لالچ سے بڑی کوئی ترغیب نہیں ہے، لالچ جسم سے لے کے روح تک پراگندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے، خلد سے نکلنے کی سزا بھی لالچ کا نتیجہ تھی۔ انسان اپنے اندر کی ذات کا یک نقطی مفاد سوچ کر اپنے آپ کو خارجی دنیا کے بے رحم ہاتھوں کے حوالے کر دیتا ہے۔


زہرا نے اپنی ذات کی تشفی کے لئے پوچھا کہ آپ ایسے شوٹ کا کیا کرتے ہیں میڈم ہمارے پروفیشنل ایکسپرٹس شوٹس میں دکھے جانے والے جسم کے خدوخال کو آیڈالائز کر کے ایکسپورٹ کوالٹی کے ڈریسرز ڈیزائن کرتے ہیں۔ آپ کے شوٹ کا ڈیٹا ہمارے صرف چند ڈزائنرز دیکھیں گے، اور پھر ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیتے ہیں۔ چند منٹ کا فوٹو شوٹ ہے، رقم فوری آپکے اکاؤنٹ میں آجائے گی۔

زہرا لالچ کے آگے اپنی عقل کی تمام ہتھیار ڈال چکی تھی، عورت کو اپنی ذات کے ڈر یا لالچ سے مجبور نہیں کیا جا سکتا، عورت اپنی ذات اپنے رشتوں کی دیوار سے چنتی ہے۔ اس کا اوڑھنا بچھونا اور جینا مرنا اپنے بنے ہوئے رشتوں سے ہوتا ہے۔ رشتوں کو مضبوطی سےبنائے رکھنا مرد نے عورت سے ہی سیکھا ہے۔ انسانی تہذیب کی عمارت وجود زن سے ہی بنی کھڑی ہے۔ مرد اپنی جبلت میں وحشی ہے، اسکی حیوانی علت کی ناک میں نکیل صرف عورت نے ہی ڈالی ہے۔ رشتوں کو پالتے ہوئے عورت ہر قربانی کا زینہ پار کر جاتی ہے، وہ چاہے جان کا ہو یا عزت کا۔


زہرا نے لجاجت اور جھکی ہوئی نظروں سے فون کیمرے کے آگے کھڑے ہوتے ہوئے اپنی قمیض اتار دی، زہرا کے جھکے چہرے کے باوجود برا کے پیچھے اسکی بیضوی اور سڈول نیم برہنہ چھاتیوں کی حرکات کیمرے کی باریک اور تیز آنکھوں کے پیچھے بیک اپ میں محفوظ ہونے لگیں۔ قدرت نے انسانی جنس میں عورت کو جسم کی خوبصورتی عطا کرتے ہوئے جس کمال فیاضی سے کام لیا ہے، کائنات میں ہنوز اسکا مقابل شاہکار نا پید ہے۔ صرف ایک جھلک ہی سے حسن زوق کی وجدانی کیفیت فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پکار اٹھتی ہے۔ ان لائین ایپلائیر کے منہ سے ماشاءاللہ باآواز بلند ہوا، میڈم آپ اپنی برا اتار کر سامنے سے چلتی ہوئی چند قدم آگے آئیں، یہ عمل تین بار دہرائیں، آپ کا یہ شوٹ مکمل ہو جائے گا۔


زہرا اپنے دونوں ہاتھوں کو پیچھے موڑتے ہوئے اپنی برا اتارنے لگی، اس کی آنکھیں مکمل بند تھیں، حیا کی جاگتی حس شاید عورت کی بے حرمتی کا پیشتر احساس کر چکی تھی۔ زہرا اپنے دماغ میں شوٹ کے لمحوں کو گنتے ہوئے یکدم گزار دینا چاہتی تھی، وہ اپنی آنکھیں جھکائے تینوں بار فون کیمرے کے سامنے آ ئی، آن لائن ایمپلائر زہرا کو باربار کیمرے میں دیکھنے کو کہتا رہا مگر اس کی کی ہمت ہی نہ ہو رہی تھی کہ وہ کیمرے سے آنکھ ملا سکے۔ شوٹ مکمل ہوتے ہی زہرا نے لپکتے ہوئے اپنی قمیض اور برا پکڑ کر پہننے لگی تو ایمپائر بولا ایک منٹ رکو ، ابھی قمیض مت پہننا ، اپنی شلوار اتارو اور کیمرے کے سامنے ٹانگیں پھیلا دو۔

زہرا حیرت اور خوف سے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں پوچھا کیا کہا ، ایمپائر بولا، جیسا کہا ہے ویسے کرو، انکار مت کرنا، تمہارا سارا نیوڈ ڈیٹا میرے پاس ہے، میں سارا فیس بک پر لگا دوں گا ، جلدی کرو ، شلوار اتارو، زہرا نے اپنی ننگی چھا تیاں چھپاتے ہوئے لائیو وڈیو کوآف کر دیا۔

زہرا نے بلیک میلر کو بار بار میسج کیے کہ میری زندگی تباہ نہ کرو،خدا رسول کے واسطے دئیے اور اسکو اسکی قسمیں یاد دلائیں، زہرا نے بلیک میلرکے جواب ” میں اپنی قسموں کا کفارہ ادا کر دوں گا، تمہارے پاس تین دن ہیں، پچاس ہزار کا بندو ست کرونہیں تو میں تمہارا ڈیٹا فیس بُک پر پبلک کر دوں گا” کے بعد اس کو بلاک کر دیا۔ وہ اپنی یہ مصیبت کسی سے شیئر نہ کر سکتی تھی، اسے کوئی شک نہ تھا کہ خاوند کو اس کی بھنک بھی ہوئی تو وہ کھڑے کھڑے طلاق دے دے گا۔ یہ سوچ کہ اس کو اپنی چلتی سانسیں رکیتں محسوس ہوتیں۔ وہ اللہ سے کسی غیبی مدد کی منتظر تھی۔

زہرا نے میرے فیسبک اکاؤنٹ کے انباکس میں تمام ثبوت، سکرین شاٹ اور اپنا وٹس ایپ نمبر بھی بھیج دیا ، میں نے کال کی تو وہ گہری سسکییوں سے رو رہی تھی، اس کو بات مکمل کہہ دینے کے بعد میں نے حسب معمول کو نسلنگ شروع کر دی، کچھ منٹوں میں اسکو اپنے اوپر اعتماد پیدا کر نے اور بلیک میلر کے خوف کو زائل کرنے میں کامیاب رہا۔

بدقسمتی سے اس معاشرے نے عورت کی تعلیم و تربیت کی شعوری کوشش ہی نہیں کی، فقط تعلیم کے نام پر اپنے اعدادوشمار کی خانہ پری کی گئی ہے۔ عورت کے اندر خوف، کسر نفسی اور بے توقیری کو خاموشی سے قبول کرنے کا عنصر بدرجہ اتم ہے۔ عورت کا ضرف نیکی اور اچھائی قبول کرنے میں مرد سے پیشرو ثابت ہوا ہے ہمدردی کے چند بول اس کے سوچنے کے زاویوں کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ سر آپ سے بات کرکے مجھے یقین ہو چلا ہے کہ آپ مجھے بے توقیر نہیں ہونے دیں گے۔ میری ساتھی ٹیکنیکل ٹیم نے بروقت بلیک میلر کی ساری ضروری معلومات بمعہ اسکے مکمل شجرہ نسب کے مہیا کر دیں، اسکے کچھ سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی مل گئے، سائبر کریمنلز کو بزدل ترین مجرم مانا جاتا ہے، اپنی ذات کو پوشیدہ رکھ کر اپنے شکار کو اپنے عزائم پورے کرنے پر مجبور کرتے ہیں، ان جرائم کے خلاف متاثرین کی خود اعتمادی سب سے بڑا دفاع ہوتی ہے، پولیس کی موشگوفیوں، عدالتی پیچیدگیوں اور اپنا مسئلہ قریبی لوگوں پر عیاں ہونے کے ڈر سے، زہرا کسی بھی قسم کی قانونی کاروائی سے گریزاں تھی۔

بلیک میلر کو آیندہ زہرا کو بلیک میل کرنے سے با ز رکھنے کے لئے بحثیت موکل کے وکیل میرا ایک لیگل نوٹس ہی کافی تھا۔ میں نے ایک سابقہ قانونی نوٹس کا مسودہ نکال کے کچھ ضروری ترامیم سے نیا نوٹس تیار کیا اور بلیک میلر کے فیس بک کے آن بکس میں بھیج دیا۔ اسکو فوری نوٹس کی طرف متوجہ کرنے کے لیے، اپنی ٹیکنیکل ٹیم کے ذریعے اسکے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو پاسورڈ تبدیل کورڈ لنک بھیج دیا، شام ڈھلنے سے پہلے، بلیک میلر اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ڈلیٹ کر کے، اپنی موجودگی کے تمام آثار غائب کر چکا تھا۔ میں نے زہرا کو “میڈم آپکا مسلہ حل ہو چکا ہے، وہ آپ کو اب تنگ نہیں کرے گا۔” پیغام بھیج دیا، اسکے جواب کا انتظار کئے بغیر اپنے ویب پیج کو لاگن کر لیا۔

میرے انباکس میں ایک نیا کیس ” کیا آپ میری مدد کر یں گے”۔ نمودار ہو چکا تھا۔

آپ مختصراً تفصیل اور سکرین شاٹس بھیج دیں، ٹیم تجزیہ کرکے کچھ دیر میں آپ کو جواب دے گی۔ میں نے اس مختصر جواب کے ساتھ لیپ ٹاپ شٹ ڈاؤن کر دیا، بیگم نے مارکیٹ شاپنگ کے لئے جا نا تھا، مزید دیر میرے اپنے لئیے خطرناک ہو سکتی تھی

Recent Posts

See All
Post: Blog2_Post
bottom of page