top of page
  • Writer's pictureTubrazy Shahid

سائبر لیگل نوٹس



ہائی کورٹ کے کورٹ روم میں داخل ہوتے ہی اپنے موبائل کو سایلنٹ موڈ لگا دیا، کورٹ شروع ہونے میں ابھی کچھ دیر تھی ، ریڈر اور دیگر عملہ کورٹ کیسز کی فائلیں ترتیب لگا رہے تھے، کرسی پر بیٹھتے ہی موبائل وائبریٹ کرنا شروع ہو گیا، میں نے ” کال یو لیٹر ” کے میسج سے کال کاٹ دی۔ ایک لمحے بعد پھر پہلے والے نمبر سے کال سے وائبریشن شروع ہو گئی، میں نے قدرے وضاحت” میں کورٹ میں مصروف ہوں ، تھوڑی دیر بعد کال کروں گا” پیغام سے کال دوبارا کاٹ دی۔ ‘خدا کے لئے میری مدد کریں، میں برباد ہو جاؤں گی’، کا پیغام دیکھ کر میں نے کورٹ روم سے باہر نکل کر اسی نمبر پرکال کر دی، سر آپ سائبر کرائم کے خلاف مدد کرتے ہیں نا؟

جی میڈم ، بتائے کیا مسئلہ ہے، کون برباد کرنا چاہتا ہے آپ کو؟

سر ایک آدمی میری عزت کو برباد کرنے پر تلا ہے، اس نے میرا نجی ڈیٹا انسٹگرام پر لگا دیا ہے، اگرمیرے گھرمیں سے کسی نے دیکھ لیا تو میرے بابا کی جان چلی جائے گی وہ پہلے ہی دل کے مریض ہیں۔

میڈم آپ پریشان نہ ہوں، آپ اطمینان سے مجھے وائس میسج وٹس ایپ کر دیں، میں ایک کیس کے لئے کوٹ میں مصروف ہوں، فارغ ہوتے ہی آپ کو کال کروں گا۔

ہائی کورٹ میں آج آئینی رٹ پٹیشن زیر سماعت تھی، میں نے فیڈریشن آف پاکستان، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور فیس بک کو پارٹی بنا کر لاکھوں جعلی اکاؤنٹس ڈلیٹ کرنے کے بارے آئینی پٹیشن دائر کر دی تھی۔

سوشل میڈیا کا ظہور سائبر لاز کو مدون،منظم اورمتشکل کرنے میں بنیادی کردار کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا انٹرنیٹ سے جڑی عوامی رائے کا اظہار ہے۔ عوامی اظہار سوشل میڈیا کے لئے ایک علت کی حثیت رکھتے ہوئے کمیونٹی اسٹنڈر کا روپ اختیار کر گیے ہیں، جس کے نفاز میں سوشل میڈیا پوری طرح سرگرم رہتا ہے۔ سوشل میڈیا قوانین سے بہراور وکیل ڈیٹا کنٹرولنگ کی سی طاقت رکھتا ہے۔ ڈیجیٹل قوانین کا ساتھ نہ دینے والے روایتی قوانین غیرمروجہ ہوتے جا رہے ہیں۔

ایک عشرہ سے انٹرنیٹ قوانین سے جڑے رہنے سے ڈیجیٹل ڈیٹا کنٹرولنگ اور پراسسنگ کی بنیادی منطق ازبر ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر موجودگی اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے اور پیشہ ورانہ آپ ڈیٹ آپ کے لئے ڈیجیٹل مارکیٹنگ کا سا کردار ادا کرتی ہے۔

بنیادی قوانین کی آگاہی کے ساتھ وکیل کا قانونی نوٹس بڑے بڑے برج ہلا کر رکھ دیتا ہے سائبر قوانین اپنی خصوصیات کے لحاظ سے بین الاقوامی قوانین کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے بیشتر قوانین یکساں ہیں مگر نفاز اور اطلاق ہیں مختلف ہیں۔

اپنی وکالت کے ابتدائی سالوں میں جب انٹرنیٹ متعارف ہوا تو اس کی اصطلاحات جاننے کا اشتیاق بڑھتا گیا، اس ضمن میں انٹرنیٹ ایکسپلورر کا استعمال انتہائی سود مند رہتا۔

انٹرنیٹ کے استعمال کی عوام میں پذیرائی نے سوشل میڈیا کے وجود کو جنم دیا جس سے آن لائن کمیونٹی ایک مہذب معاشرے میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے نفرت، دشمنی، اور تحقیری الفاظ کی ہر شکل کی دل شکنی جدید ڈیجیٹل معاشرے کا خاصہ ہے بعید نہیں کہ بہت جلد دنیا بھر میں جنگ اور اسلحہ کے خلاف عالمگیر تحریک اٹھے اور امن کی عملی عالمی مثال قائم کر دے۔

نیشنل الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی ملک میں سیاسی جماعتوں کے جلسے اور جلوسوں کی گہما گہمی شروع ہو گئی۔ شوشل میڈیا پر سیاسی مخالفین کی مخالفت اور کردار کشی کی مہمیں شروع ہو گئیں، نئے نئے گروپس اور پیجز بننے لگے، ہر پوسٹ میں مغلضات ، گالیاں اور الزامات کی بھر مار ہوتی۔ کمنٹس باکس میں دوست اور رفقاء اپنی اپنی جماعت کی طرف داری میں ایک دوسرے سے رقابتیں اور دشمنیاں پالنے لگے، پسماندہ معاشروں میں فرد اپنی رائے لمحوں میں قائم کرلیتے ہیں، وہ ارادتاً حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں، اپنی عصبیت، برا دری اور خاندانی رجحان کی نمائندگی الوہی ودیت سمجھ لیتے ہیں۔ اپنے مفاد کے لئے سیاست اور مذہب کا ہر زاویہ سے استعمال کرتے ہیں۔

فیک اکاؤنٹس اور گروپس کو ڈلیٹ کرنے کے بارے مجھے ہر روز انباکس میں کئی درخواستیں موصول ہونے لگیں، ایسے اکاونٹس کی اصلیت پہچانے کے لئے دو منٹ کا تنقیدی جائزہ ہی کافی ہو تا ہے۔ ابتداء میں قریبی دوستوں نے جو فیک اکاؤنٹس رپورٹ کرتے، میں انکو ڈلیٹ کروا دیتا ، کچھ ہی دنوں میں فیک اکاؤنٹس ڈلیشن کے پیغامات سے میرا انباکس اورلوڈ ہونے لگا، مختلف اخبارات اور ٹیلیویژنز نے بھی لاکھوں فیک اکاؤنٹس کے بنائے جانے کی نشاندھی کی، امریکہ کے سابقہ الیکشن میں سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے بارے پوری دنیا میں اس کی باز گشت سنائی دی رہی تھی، امریکن کانگرس میں ہر بڑی انٹرنیٹ کمپنی سے سوال و جواب ہونے لگے۔ یورپین ڈیٹا پرائیویسی کا قانون سوشل میڈیا کے عفریت کو نکیل ڈالنے کے قدم اٹھا چکا ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کمپنیوں کے ڈیٹا اکھٹا کرنے اور ریپراسس کرنے کے لئے کمیونٹی ضوابط اور ریاستی قوانین کا پابند ہونا ضروری ہوتا جا رہا ہے۔

اپنی نوعیت کی یہ پاکستان میں پہلی آئینی رٹ تھی، جس میں ایک آنلائن جعلی مگر نہایت متحرک کمیونٹی کے وجود پر سوال اٹھایا گیا، جو سوشل میڈیا سے جڑی عوام کی رائے تیزی سے بدلنے کی صلاحیت رکھتی تھی، کوئی بھی جعلی خبر بجلی کی سرایت کے ساتھ پھیل کر منٹوں میں انسانی زہن متاثر کر سکتی ہے۔

ہائی کورٹ کے معزز جج صاحب نے تفصیلاً بحث کے بعد حکومت پاکستان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نوٹس جاری کر دئیے۔ رٹ پٹیشن کی خبر کو ملک کے تمام بڑے اخبارات نے سرورق پر شائع کیا، میری قانونی نظر میں میری دائر کی گئی آئینی رٹ اپنے مقاصد حاصل کر چکی تھی، بعد ازاں میں نے رٹ پٹیشن آرڈر کی مصدقہ نقول حاصل کر کے جعلی اکاؤنٹ کی موجودگی اور اسکے ممکنا اثرات بارے ایک اضافی نوٹ کے ساتھ ایک خط فیسبک ہیڈ آفس امریکہ بھیج دیا، فیسبک نے غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے لاکھوں جعلی اکاؤنٹس ڈلیٹ کر کے پریس ریلیز جاری کر دی۔

قانون کا احترام اور پاسداری مغرب نے انسان کے ہزاروں سال کے عملی تجربے سے سیکھی ہے، خدائی قانون کی تشریح کرتے ہوئے مغرب نے انسانی حقوق کی نیابت کی بنیاد پوری دیانتداری سے رکھی ہے، سب سے بڑی آفاقی سچائی انسان ذات کی فضیلت تسلیم شدہ ہے، صرف انسان سے انسان کا افضل سلوک جدید فلاہی ریاست کی بنیاد ٹھرا۔ سوشل میڈیا کے قوانین ریاستی قوانین سے زیادہ موثر ثابت ہوئے ہیں۔ ان سوشل میڈیا قوانین نے بین الاقوامی قوانین کی ہیت تیزی سے بدلنے میں اپنا موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کا موضع ریاستیں ہیں، جبکہ سوشل میڈیا قوانین کا موضوع فرد ہیں۔ جن کی ذات سوشل میڈیا قوانین کے لئے انتہائی اہم ہے، ایک چھوٹا سا گرا ہوئے لفظ کے استعمال پر سوشل میڈیا کی پابندیوں کا سامنا اب عام سی بات ہے۔

فیسبک اور دیگر سوشل میڈیا کے کمیونٹی ضوابط اور قوانین واضع اور نہایت سخت ہوتے جا رہے ہیں، آرٹیفیشل ذہانت کی بنیاد پر ہر قسم کے ڈیٹا بلکہ ایک ایک لفظ کی جانچ پڑتال کے بعد اسے شائع ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس سارے مرحلے میں انسانی مداخلت کی گنجائیش نہیں، یہ کام مشینی دماغ باخوبی سر انجام دے لیتے ہیں، ڈیٹا کو شائع کرنے کے خلاف اعتراض، شائع شدہ ڈیٹا کو ہٹانے پہ اپیل کے حق کی سماعت کے لئے سوشل میڈیا کی انسانی دماغ پر مبنی ٹیم فیصلہ کرتی ہے۔

دفتر واپسی پر میں نے سب سے پہلے صبح والی لڑکی کے نمبر پر کال کی، وہ شائید بے یقینی کا شکار تھی، بار بار پوچھتی رہی کہ واقعی آپ سائبر کرائم ہیلپ سے بات کر رہے ہیں، میں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے اسکے مسلے کی تفصیل پوچھی، بے بسی کی تنہائی بڑی ظالم ہوتی ہے، انسان اپنوں میں گھرا ہوا بھی اکیلا ہوتا ہے، لاچار اتنا کہ کسی اجنبی کے سائے میں بھی پناہ ڈھنونڈ لے۔

سر میں آپ کو ساری بات بتاتی ہوں، میرے ایک کزن یہاں میونسپل کارپوریشن میں سنیئر کلرک ہے، انکے توسط سے مجھے یہاں نوکری مل گئی، یہ شادی شدہ اور دو بچیوں کا باپ ہے۔ سر یہ مجھے شروع سے ہی بد نیتی سے تنگ کرتے آیا ہے۔ دو بار بغیر کسی قانونی جواز کے معطل کرا چکا ہے۔ اسکا ادارے میں کافی اثر و رسوخ ہے، ابا کو فالج ہو جانے کے بعد، میری اس نوکری نے میرے خاندان کو زندہ رکھا ہوا ہے، بہن بھائی دونوں چھوٹے ہیں اور اماں پڑی لکھی نہیں کہ وہ کوئی نوکری کر سکے۔ تیسری بار معطل کرانے کی دھمکی دے کر وہ مجھ سے زبردستی جسمانی تعلق بنا چکا ہے۔ اب اپنے افسروں کی خوشنودی کے لئے مجھے انکے ساتھ سونے کا کہتا ہے، میرے انکار پر اس نے میری تصویر انسٹگرام پر گشتی کا ٹائٹل لکھ کرلگا دی ہے۔

میڈم آپ کا نام اور آپ کس شہر سے ہیں۔ ؟

سر میرا نام زرینہ ہے اور میں فیصل آباد سے ہوں۔

زرینہ کی انسٹاگرام کا سکرین شاٹ میں اسکی ایک تصویر کے عین نیچے رومن اردو میں گشتی لکھا ہوا تھا۔ زرینہ دراز قد ، تیکھے نقوش ، اور گندمی رنگت کی چوبیس سالہ خاتون تھی۔

مرد غالب معاشرے میں عورت کی ایک ‘نہ’ مرد حضرات کی غیرت کو للکار دیتی ہے، اسکی آنا پیج و تاب کھا کر چکنا چور ہو جاتی ہے، اور اس کی مردانگی ضد کے مینار پر چڑھ کے خودکشی کا نعرہ بلند کر دیتی ہے۔ عورت مرد کے اس حیوانی پن کو کتے کے پٹے سے پیٹنے کی بجائے، اپنی غیر معمولی عزت کا معاشرے میں انگلیاں اٹھنے کے ڈر سے سودا کر لیتی ہے۔

مرد کی سوچ کا محور عورت ہے، صرف عورت جبکہ عورت کی سوچ کا محور مرد ہرگز نہیں ہے، عورت کی سوچ کا محور عورت کے اندر چھپا اپنا پن اور اسکی ممتا ہوتی ہے۔ عورت کی نفسیات تقدس اور عزت کی مالا جپتی ہے، اور ساری زندگی عزت کا پالن کرنے میں جٹی رہتی ہے۔ عورت کے ضرف کا پیمانہ مرد سے بڑا ہے، وہ حصول کی محرومی صبر کی ڈھال سے سہہ لیتی ہے، وہ مانگے تانگے کی قائل نہیں وہ غنی اور بخشیش کی دعویدار ہے۔ مرد اپنے حصول کا آغاز اپنی مردانگی کی چنگھاڑ سے کرتا ہے اور محرومی کی خفت کے ڈر سے اپنے ضرف کے عَلَم کو گداگری میں بدل کر حصول کو ممکن بنا لیتا ہے۔

مرد کی نفسانی جبروتیت نے عورت ذات سے رد کیے جانے پہ، گشتی، رنڈی، رکھیل جیسے الفاظ کی ایجاد کی۔ عورت کا مرد ذات سے بے پرواہی کا پیمانہ اتنا لبریز ہے، کہ اس نے گشتا، رنڈا، اور رکھیلا جیسے مرد ایجاد شدہ الفاظ کو متشکل کرنا ہی درخواعتنا نہ سمجھا.

گرچہ قابل اعتراض تصویر ہٹوانہ کچھ لمحوں کا پراسس تھا مگر زرینہ کے اصل مسلے کا حل نہ تھا، وہ کورٹ اور وومن امبڈزمین کے قانونی کاروائی کرنے سے بھی خائف تھی۔ اسکا ایک ہی اصرار تھا کہ سر آپ ہی میرے لئے کوئی مناسب حل نکالیں۔ وہ دراصل خفیہ رہ کر کاروائی کرنا چاہتی تھی۔ وہ بعد از قانونی کاروائی کے نتائج سے ڈری ہوئی تھی۔ متاثرین سائبر کرائم سائبر لاز سے کرشما سازی کی امید لگائے ہوتے ہیں، کہ مسلہ بتایا اور خود کار طریقے سے من پسند نتائج کا حصول، حقیقت میں سائبر کرائم کا هر مسئله انسانی دماغ کی پیچیده مشقت سہ کر حل ہوتا ہے۔

کسی بھی معاشرے میں دادرسی کی آخری منزل قانون ہوتا ہے۔ قانون کا سہارا لینے کے نتائج اگر خوف کو جنم دینے کا موجب بنتے ہیں، تو وہ معاشرہ بمثل جنگل ہے، جہاں پہلا اور آخری قانون طاقت ور کا اذن ہے۔

زرینہ کی جانب سے دادرسی بذریعہ کورٹ راضی نہ ہونے پر میں اگلے مرحلے کا سوچنے لگا،

ملزم کا نام، عہدہ ، چیٹ سکرین شاٹس اور واٹس ایپ نمبرمدعیہ نے ہی مہیا کر دیا تھا، اکثر سرکاری ملازم اپنے عہدے کی طاقت ور حیثیت کے نشے میں اپنی سرکاری نوکری کی ذمہ داری اور جوابدهی کو یکسر فراموش کئے ہوتے ہیں۔ میں نے ایک وارنگ لیگل نوٹس ڈرافٹ کیا، اور اسکے مندرجات میں ورک پلیس اور سائبر ہراسمنٹ کے موضوع تک رکھا اور اپنی جونیئر وکیل کو زرینہ کی کلاس فیلو دوست وکیل کی حثیت سے ارجنٹ ارسال کروا دیا، ساتھ ہی انسٹاگرام پر ملزم کے فیک اکاؤنٹ کو ” یہ فیک اکاؤنٹ بنانے والا ٹریس ہو گیا، جلد جیل میں ہو گا” کے ٹائٹل کے ساتھ لنک سائبر پروٹیکشن کمپنی کی وال پر شیئر کر دیا۔ زرینہ کو نفسیاتی حربہ کے طور پر سمجھا دیا تھا کہ وہ آفس میں دو دن کی چھٹی کی عرضی بھیج دے اور ملزم کا کوئی بھی فون ایک دن کے لئے نہ سنے، حسب توقع اگلے دن شام سے پہلے زرینہ کا فون اگیا، اسکا لہجہ پر اعتماد تھا، اسکے بات کرنے کے انداز میں بشاشت تھی، اسکے اسلام و علیکم کے کہنے میں تکریم تھی۔ وہ بولی سر اس نے صبح سے درجنوں کالیں اور میسجز کیے، میں نے کوئی رسپانس نہیں دیا، دوپہر کو وہ آفس سے آبا کی خیریت دریافت کرنے گھر آگیا، اور مجھے آفس کا معاملہ بتانے کے بہانے سے سائیڈ میں لے جا کر میرے پاؤں پڑھ کر معافی مانگنے لگا، اور منت کرنے لگا کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور میری بیگم بہت سخت ہے، وہ کبھی مجھے معاف نہیں کرےگی، آئنیدہ میں تم کو اپنی بہن سمجھوں گا، مجھے معاف کر دو میں یہاں سے اپنی ٹرانسفر کروا لوں گا۔

میں نے پوچھا، میڈم آپ یہ بتائیں، اتنی دھمکی کافی ہے یا کوئی اور حل نکالیں؟

سر میں نے اسکے اعتراف جرم اور معافی کی وڈیو بنا لی ہے، اب یہ ہرگز مجھے تنگ نہیں کر سکے گا۔ زرینہ کے اعتماد کا لیول میرے لئے خوش کن تھا کہ اب وہ ملزم کی طرف سے کسی بھی حیوانی پن کی صورت میں اپنے دفاع میں معقول ثبوت رکھتی تھی۔

زرینہ شکریہ اور دعائیں دی رہی تھی، میں خدا حافظ کے ساتھ فون آف کر دیا، انباکس میں مجھے انڈیا سے ایک کلائنٹ کو ” میں آپکی کیسے مدد کر سکتا ہوں؟ کا فوری جواب دینا تھا۔


Recent Posts

See All
Post: Blog2_Post
bottom of page