top of page
  • Writer's pictureTubrazy Shahid

انٹرپول


سائبر کرائم افسانہ

شاہد جمال تبریزی

سائبر کرائم وکیل


سن دو ہزار چودہ کے اوئل میں میری کتاب 'لاز آف ڈیجیٹل ایویڈنس ان پاکستان' شائع ہو گئی، اپنے قریبی وکلاء دوستوں کو کئی درجن نئی کتاب کی کاپیاں تحفہ" بانٹے کے باوجود کئی وکلاء دوست کتاب کا اصرار کر رہے تھے۔ سائبر لا کی یہ میری چھٹی اور پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب تھی، کچھ سقم کے باوجود اب یہاں سائبر کرائمز کے ٹرائل کے لئے قانون اور پروسیجر واضع ہوتے جا رہے تھے۔ سائبر کرائم کے متاثرین کا عدالتوں سے دادرسی کا رجحان بڑھ رہا تھا۔

کرن ناز سائبر کرائم کا مقدمہ دائر کرا چکی تھی، کورٹ میں ابتدائی کاروائی کے بعد اسکا کیس ملزم کی غیر موجودگی کی بنا پر عملاً رک چکا تھا۔ مدعیہ ملزم کی بیرون ملک موجودگی سے آگاہ تھی مگر وہ کچھ نہ کر سکتی تھی، انوسٹیگیشن ایجنسی نے یہ کہہ کر تعاون سے انکا کر دیا کہ سائبر کرائم کیسز میں ملزم کو بیرونِ ملک سے نہیں لایا جا سکتا، نہ ہی ایسا کبھی پہلے ہوا ہے۔

اس گنجلک مسئلہ کے لئے کرن نے کئی وکلاء سے رابطہ کیا، حل تو کوئی نہ ملا مگر کیس فائل دیکھنے کے بعد ہر کچہری کے ہر وکیل نے اسکی کیس فائل دیکھ کر اسے اپنی فیس کی بجائے اسکے جسم کی مانگ کر ڈالی۔ فقط تعلیم انسان کے اندر تعظیم انسانیت بیدار کرنے میں ناکام رہی ہے، جدید دنیا میں انسان کی جبلت میں حرص کو نظر انداز کرنے کی بجائے، سراب کرنے کا معقول نظام دیا، بلکل اسی نقطہ نظر سے کہ بھوکے بھیڑیے، اپنے ہی جھنڈ کے کمزوروں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں، اور سیراب شیر بھی اپنے پاس کھڑے ہرن کی موجودگی کو اراداتہ فراموش کیے ہوتا ہے۔ ویلفیر سٹیٹ کے نظریہ سے نہ صرف معاشرہ کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا گیا بلکہ فرد کی دبی نفسانی خواہشات کی تسکین کے لئے معقول بندوبست نے اتنا سیراب کیا کہ کسی مجبورو لا چار کو گرگ آتشی کا سامان کرنے کی بجائے، اس کی فلاح کا درد پیدا کر دیا گیا۔

کرن ناز نے میرے جاننے والے وکیل کے ریفرنس سے ہفتہ کے روز گھر میں ٹائم لینے کا اصرار کیا۔ اسکا بات کرنے کا انداز بغیر ہچکچائے اور بے دھڑک تھا، ضرورت مند انسان کو گفتگو کے آداب سے نہیں اپنی ضرورت سے تعلق ہوتا ہے۔

کرن ناز جولائی کی سپہر میں مکمل برقعہ میں ملبوس اپنی ماں کے ساتھ میرے گھر کے ڈرائنگ روم والے آفس میں آئی، اسلام وعلیکم، میرے جواب کا انتظار کیے بغیر، سر ایک گلاس پانی مل سکتا ہے، میں نے چھوٹی فریج کی طرف اشارہ کر کے کہا، اوپر صاف گلاس ہے، اور فریج میں پانی موجود ہے، زرا خود تکلیف کر لیں۔ دونوں پانی پی چکیں تو میں نے کہا کیس کیا ہے؟ کرن نے بیگ سے فائل نکال کر میری ٹیبل پر رکھ دی، بولی سر یہ مکمل فائل ہے، جو صفحات پن شدہ ہیں وہ آپ میرے جانے کے بعد دیکھ لیجیے گا۔ میں نے فائل کو سائیڈ پہ کر کے کہا، پہلے اختصار کے ساتھ زبانی کیس بتائیے۔

کرن ناز سر جھکا کر سوچ میں پڑھ گئی، لیکن میرا اندازہ تب غلط نکلا، جب اسکی سسکیوں کی آواز آئی، وہ رو رہی تھی۔

میڈم آپکے کیس کی حقیقت جانے بغیر میں آپکی کئی مدد نہیں کر سکوں گا، اور مہربانی میرے گھر میں چھوٹے بچے بھی ہیں، یہ رونا بند کریں۔ میں نے زرا سردمہری سے کہا۔

جی سر، کرن ناز نے اپنے آنسو صاف کیے اور مخاطب ہوئی، سر کچھ عرصہ پہلے میری فیس بک پر ایک لڑکے سے دوستی ہوئی، جو رفتہ رفتہ محبت میں تبدیل ہو گئی، لڑکا جاب کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم تھا، اسکے گھر والے میرے گھر آکر مجھے منگنی کی انگوٹھی پہننا گئے، آن لائن ہماری ایک دوسرے سے بات چیت ہوتی رہی، چند ماہ بعد وہ پاکستان آیا اور مجھے لاہور کے ایک ہوٹل میں کھانے پہ بلایا کہ کچھ تحائف لایا ہوں اور شادی کے بعد پاکستان سیٹل ہونے کا پروگرام بنا رہا ہوں، اس بارے کچھ بات بھی کرنی ہے، میں یہاں مقامی کمپنی میں جاب ٹائم کے بعد اسکے ہوٹل ملنے چلی گئی، تحائف کے بہانے وہ مجھے اپنے کمرے میں لے گیا اور وہاں زبردستی کرنے کی کوشش کی، میرے پاس منع کرنے کا ہر جواز تھا لہذا میں نے سختی سے باز کیا اور اسکے تحائف وہیں پھینک کر واپس گھر آ گئی۔

میں ہیجان اور ندامت میں اپنے گھر کسی کو نہ بتا سکی، رات کو اس نے معذرت کا میسج کیا اور اگلے دن اپنے گھر والوں کو فوراً نکاح کرنے کا پیغام دے کر بھیج دیا۔

چند دن بعد ہمارا نکاح ہو گیا میں نے حق مہر میں پچاس لاکھ رقم لکھوائی اور وہ میری رخصتی کے بغیر واپس بیرون ملک واپس چلا گیا۔

اب ہماری جب بھی واٹس ایپ پر بات ہوتی وہ مجھے اپنی ننگی وڈیو اور تصاویر بھیجنے کا اصرار کرتا، میں انکار کرتی تو وہ خاوند ہونے کا حق جتاتا، اب میرے پاس اسے منع کرنے کا کوئی معقول جواز نہ تھا، سو میں نے جیسے وہ کہتا ویسی برہنہ تصاویر بھیج دیتی۔ اس نے میرے جسم کے ایک ایک حصہ کی برہنہ تصاویر اور ویڈیوز لیں، وہ مختلف پوز کی پورن تصویریں بھیجتا اور کہتا اسی طرح کی تصویریں مجھے بنا کے دو، اور میں اسکی ہر فرمائیش پوری کرتی رہی۔

پھر اچانک ایک دن میرے کسی رشتے دار کو کرن ناز کال گرل کے نام کی آئی ڈی سے فرنڈ ریکوسٹ آئی، اس نے ایڈ کر کے دیکھا تو اس آئی ڈی میں میری تمام برہنہ تصاویر جو میں اپنے خاوند کو بھیجی تھیں وہ سرعام شائع ہوئی تھیں۔ مجھے میرے گھر والوں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور سارے خاندان کی طرف سے لعنت و ملامت کیا گیا، اور ہمارے خاندان کاہر طرف سے ناطقہ بند کر دیا گیا۔

میں نے اپنے خاوند کو ہزار ہا فون کیے اور میسجز بھیجے، مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا، آخر کئی دن بعد اس نے ایک مختصر میسج بھیجا کہ تم نے مجھے ہوٹل میں ذلیل کیا تھا میں نے بدلہ لے لیا ہے اب چاہو تو مجھ سے طلاق لے لو۔ میں اسکا تمام منصوبہ سمجھ گئی، وہ اصل میں مجھے ہوٹل میں ددکارنے کا بدلہ لے رہا تھا۔ مرد اپنائی ہوئی عورت سے کبھی شکست نہیں کھانا چاہتا، اسے وہ اپنی انا کی موت سمجھتا ہے، عورت سے شکست خوردگی مرد کو ازلی روگ لگا دیتی ہے، بدلہ سے اپنی خفت مٹانے کا روگ، اگر نہ لے سکے تو وہ انسانیت کے مقام سے گر کر عورت ذات کے خلاف ہو جاتا ہے،اور اسے رنڈی اور گشتی کے القابات سے نوازانا شروع کر دیتا ہے۔

کرن نے ہر طرح کی لعن و ملامت اور سختی کے باوجود اپنی برائت کے لئے قانون کا سہارا لیا، سب کہتے رہے کی تم وقت برباد کر رہی ہو کچھ نہیں بنے گا، وہ بھی ایسے ملزم کے خلاف جو ملک سے باہر بیٹھا ہے۔

عورت اپنی ذات کے ظلم سہ لیتی ہے مگر اپنی عزت پر حرف آ جائے تو اپنی ذات کے شیشے توڑ کر اپنی عزت بچانے پر آ جاتی ہے۔

کرن نے سائبر کرائم کا کیس دائر کر دیا، کورٹ میں پر پچوئل وارنٹ جاری ہونے کے بعد کوئی موثر کاروائی نہیں ہو رہی تھی، کیس میں محض اگلی تاریخ ہی ڈالی جا رہی تھیں۔ متعلقہ سائبر قانون میں آگے بڑھنے کا کوئی نقظہ موجود نہیں تھا، اور سائبر قوانین کے رولز ابھی متشکل نہ ہوئے تھے، عام جرائم بارے روایتی قوانین کسی بھی راہنمائی سے عاجز تھے۔

کیس روبرو کا معائنہ کے بعد میں نے کرن ناز کو کیس لینے کی حامی بھری اور اپنی پیشہ ورانہ فیس بتائی، کرن سر جھکائے قدرے توقف کے بعد بولی سر میں آپکی زیادہ کیا تھوڑی فیس بھی نہیں دے سکتی، میں نے آپ کو اپنے سب حالات بتا دیئے ہیں، یہ میری امی بیٹھی ہیں جو میرے بھائیوں کو بتائے بغیر میرے ساتھ آ گئی ہیں، یہ کہتی ہیں، تمہارا مر جانا بہتر ہے، گھر میں اور بھی بیٹیاں ہیں، ہم اور ذلت برداشت نہیں کر سکتے۔ سر اگر آپ نے میری مدد نہ کی تو میرے پاس اپنی جان دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

چلیں میں فیس کے بغیر ہی آپکی مدد کروں گا، آپکا ٹرائل کیس ہے، سخت تگ دو کی ضرورت پڑے گی، آپ نے مایوس نہیں ہونا اور ہمت نہیں ہارنی، آپکے ملزم کو یہاں عدالت میں کھینچ لائیں گے۔ میں صرف ضروری کاروائی میں عدالت آؤں گا، اور ضروری کارروائی کب ہوتی ہے وہ بھی بتاتا رہوں گا۔ فون پر عدالت کی کاروائی سے آگاہ کرتی رہنا۔ عدالت میں اس کیس کو آپ نے خود لڑنا ہے، میں آپکو آپکے کیس کی تیاری کرواتا رہوں گا۔ آپ گریجویٹ ہیں مجھے مکمل بھروسہ ہے، میری ہدایات پر آپ خود اس کیس کو کامیابی سے آگے لے جائیں گی۔

مجھے ملزم کی ایک شناختی کارڈ کاپی، چند تصاویریں، نکاح نامہ کی کاپی، مہر شدہ ایف آئی آر، کورٹ سے تصدیق شدہ پرپچوئیل وارنٹ کی کاپی، اور ملزم کا باہر کے ملک میں آخری معلوم پتہ درکار ہے۔ کرن ناز نے اثبات میں سر ہلایا بولی سر صرف دو دن دے دیں، یہ سب دستاویزات میں آپ کو لا کر دوں گی۔

کرن کے لائے ہوئے دستاویزات سے میں نے اینٹی منی لانڈرنگ کے رولز میں بتائے گئے طریقے کار کے مطابق انوسٹیگیشن ایجنسی کو بحثیت مدعی مقدمہ لیٹر ارسال کر دیا اور ایک اور لیٹر کرن ناز کو دیا کہ وہ خود وزارتِ داخلہ جائے اور وہاں متعلقہ آفیسر کو دے کے آئے۔ آخری مرحلے میں ایک تفصیلی لیٹر میں نے کرن ناز کے وکیل کی حیثیت سے عدالت کے تصدیق شدہ دستاویزات بمعہ وکالت نامہ انٹرپول ہیڈ آفس بھیج دیا۔ کرنناز کو میں نے تسلی دی کہ الله پہ بھروسہ رکھو، انشاء اللہ ہماری محنت کا صلہ ضرور ملے گا۔ کرن معمول میں عدالت میں اپنے کیس کی پیروی کرتی رہی، مگر اب اس میں اعتماد اور اپنے آپ پر یقین بڑھ گیا تھا، ایک دن کرن نے میسج بیجھا کہ سر جس طرح آپ میری راہنمائی اور مدد کرتے ہو، ایسا لگتا ہے کہ میرے اندر نئی روح آ گئی ہے، عدالت میں کئی لوگ مجھے وکیل سمجھ کے مجھ سے میرا وزٹنگ کارڈ مانگتے ہیں، اور ججز اور وکیل بھی استعجاب میں پوچھتے ہیں کہ کیا آپ وکیل بھی ہو۔ میں نے کہا کرن ایک مشورہ دوں، بولی سر آپ حکم کریں۔ میں کہا چلو حکم ہی سمجھو، تم زندگی کی سب سے بڑی ابتلاء کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہو، اسے قدرت کا امتحان سمجھ کے اس سے سیکھو، کسی لا کالج میں داخلہ لے لو اور ایوننگ کلاسز لے لیا کرو، زندگی کا یہ تلخ سبق ضائع نہیں جائے گا، وکیل بن جاؤ گی تو اپنے اور دوسروں کے کام آ سکو گی، بولی سر وہ تو ٹھیک ہے مگر میری تو برہنہ تصاویر انٹرنیٹ پہ برسرعام شائع ہوئی تھیں، میں نے کہا اسی لئیے حکم دے رہا ہوں، مجھے پتہ تھا کہ تم یہی کہو گی۔ میں نے سمجھایا کہ چار پانچ سال بعد وکیل بن جاؤ گی تو پیچھے مڑ کر دیکھو گی تو یہ بات اتنی معمولی لگے گی کہ جیسے کسی پاگل نے گالی دی اور اسے نظر انداز کردینا۔ تم کامیابی سے کیس کی پیروی کر رہی ہو، تم وکیل بھی بن سکتی ہو۔ سر اگر قانون سمجھ نہ آیا یا پھر کہیں مشکل آئی ؟ میں کہا، ایسے میں میں آپ کو گائیڈ کر دیا کروں گا۔ کرن ناز نے چند ہفتوں میں کالج فیس کا انتظام کیا اور لا کالج میں داخلہ لے لیا۔

نومبر کی رات تین بجے اچانک آنکھ کھلی تو موبائل وائبٹریٹ کر رہا تھا۔ میں دیکھا تو کرن ناز کی کافی ساری کالیں اور میسجز آئے ہوئے تھے۔ میں نے کال اٹھائی، اللہ کا شکر ہے سر آپ نے کال اٹھا لی۔ سر مبارک ہو، آپ نے واقعی کمال کر دیا، سر انٹرپول والے میرے ملزم کو پکڑ کر پاکستان لے آئے ہیں، انہوں نے متعلقہ تمام محکموں میں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے مگر رات گئے اس وقت کسی سے رابطہ نہیں ہو پا رہا، ائیرپورٹ حکام نے انٹرپول سے موصول دستاویزات سے میرا نمبر لے کر مجھے یہاں بلایا ہے، میں اب کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔

تم وہاں ارئیرپورٹ حکام کے سامنے اپنے ملزم کی شناخت کرو اور صبح تک وہیں انتظار کرو، متعلقہ اداروں کے اہلکاروں صبح ہر صورت پہنچ جائیں گے، باقی کام ان کا ہے۔

اگلے دن ملک کی تمام بڑی اخبارات نے " پاکستان میں پہلی بار انٹرپول سائبر کرائم ملزم کو پکڑ لائی" عنوان سے تفصیل سے فیچر شائع کیے۔

ملزم کی بعد از گرفتاری ضمانت ٹرائل کورٹ اور بعدازاں عدالت عالیہ اور پھر سپریم کورٹ سے خارج ہو گئی، کرن ناز اپنے کیس کی پیروی کے لئے مجھ سے کیس تیاری کے بعد خود پیش ہوئی، اور کامیابی سے اپنے کیس کے نتائج حاصل کیے، سپریم کورٹ نے ملزم کی ضمانت اخراج کے ساتھ کیس سماعت مکمل کی دو ماہ کی ڈائرکشن کر دی۔

ٹرائل کورٹ کے جج صاحب بہت معاون ثابت ہوئے، شہادت ریکارڈ کے مرحلے پر درجن سے زیادہ گواہان تھے۔ اکثر کورٹ شام چار بجے تک کاروائی جاری رکھتی اورعدالت اعظمیٰ کی ہدایات کے مطابق کیس کی سماعت دہ ماہ میں مکمل کی کر دی۔ اپنے آخری فیصلہ میں کورٹ نے جرم ثابت ہونے پر ملزم کو سات سال سزا اور بیس لاکھ جرمانہ کی سزا سنائی۔

کرن ناز اپنی برائت کے فیصلہ پر نازاں تھی، وہ چیخنا چاہتی تھی کہ دنیا کو بتا سکے کہ میں بے قصور تھی، میں نے تو اپنے خاوند کی اطاعت میں سب کچھ کیا، جو ایک مشرقی عورت پر لازم سمجھا جاتا ہے۔ اپنے خاوند کے گناہ کی سزا تشدد اورنفرت کی شکل میں میں نے بھگتی، لیکن یہ سوچ کرکہ ابھی 'اس معاشرے نے سزا دینا سیکھا ہے، جزا کے مقام پر پہنچنے کے لیے شائید ابھی صدیاں درکار ہوں گی'، اسکی آواز دھب سی گئی۔

میں نے کہا، کرن میرا فرض پورا ہوا، اب تمہیں کورٹ آنے کی ضروت نہیں، اپنے عہد ہر قائم رہنا اور وکالت کی ڈگری ضرور حاصل کرنا۔

سر، اب میری زندگی کا یہی مقصد ہے، اس نے شکریہ ادا کیا تو اسکی نم آنکھوں کے پیچھے ڈھیروں دعائیں تھیں۔ شام ڈھل رہی تھی، اور بھوک بھی زوروں پر تھی، میں پارکنگ میں اپنی اکلوتی کھڑی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔



Recent Posts

See All
Post: Blog2_Post
bottom of page